حیدر کے کمرے سے نکل کر میں اپنے کمرے میں آگئی اور دل ھی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگی کہ پھدی کی آگ ایسے تو نہیں مٹنی اسکا کوئی حل ڈھونڈنا پڑے گا ۔
حیدر کے ساتھ اوپر اوپر تک تو ٹھیک ھے لیکن میرا دل نہیں مانتا تھا کہ اسکے لن کو اپنی پھدی میں جانے دوں ۔ مجھے یہ بھی پتا تھا کہ حیدر اب مکمل طور پہ میرے ساتھ سیکس کرنا چاہتا ھے ۔ آج بھی اسی وجہ سے اسنے اپنا لن اچانک میری پھدی میں ڈالا کہ شاہد اسکو میں نہ روکوں ۔ لیکن اسکے لن کے اندر جانے کے بعد میری پھدی اب کچھ زیادہ ھی تڑپ رھی تھی ۔
حیدر کا لن چوسنا مجھے بہت اچھا لگا تھا لیکن میری پھدی بھی اب اس لن کو کھانے کے لئے بیتاب ھو رھی تھی ۔
میں نہانے کیلیئے واش روم میں چلی گئی اور اپنے کپڑے اتار کے خود کو آئینے میں دیکھنے لگی ۔ مجھے اب اپنا جسم پہلے سے زیادہ حسین لگ رھا تھا اور میرے ممے بھی زیادہ نکھر گئے تھے ۔ میرے نپل ابھی تک کالے نہیں ھوئے تھے بلکہ وہ اب پہلے سے زیادہ گلابی لگ رھے تھے ۔ میں نے اپنے مموں کو ہاتھ میں پکڑ کر اچھالا تو مجھے سرور سا آیا ۔ میں نے اپنے نپلز کو مسلنا شروع کر دیا جسکی وجہ سے میری آنکھیں خود ھی بند ھونے لگ گئی تھی۔ مجھے مزہ آنے لگ گیا ۔ میں نپلز کو مسلتے سوچ رھی تھی حیدر ایسا کر رھا ۔ میں نے اپنی پھدی کو اب مسلنا شروع کیا اور ایک انگلی اسمیں گھسا دی ۔ میری پھدی مکمل طور پر اندر سے گیلی تھی اور اسمیں سے پانی رس رھا تھا ۔
میں نے اپنی پھدی میں انگلی ڈال کے اندر باہر کرنا شروع کر دی ۔ مجھے مزہ تو آ رھا تھا لیکن لن والی بات نہیں تھی میری پھدی کا انگلی سے کچھ نہیں ھونا تھا ۔ اسکو ایک تگھڑے لن کی ضرورت تھی۔
میں نے پھدی سے انگلی نکال لی اور ایسے ھی ننگی اپنے کمرے میں آگئی اور کچھ بڑی چیز دیکھنے لگ گئی جو پھدی میں لوں ۔ میری نظر اپنے بیڈ کونوں پر گئی جہاں چار چار انچ کے لمبے لکڑی کر گول ٹکڑے باہر جو نکلے ھوئے تھے اور گولائی میں 3 انچ موٹے ھوں گے ۔ میں کونے والے ٹکڑے کے پاس گئی اور اسکو ہاتھ لگا کے چیک کیا تو مجھے لگا کہ یہ انگلی سے قدرے بہتر ھے ۔میں نے تیل کی شیشی سے اس پر تیل لگایا تو کافی چکنا ھو گیا ۔ میں نے اپنی پھدی پہ بھی تیل لگا لیا اور منہ دوسری طرف کر گانڈ کو تھوڑا باہر نکالا اور آہستہ سے اس پر بیٹھتی چلی گئی ۔ میری پھدی نے جیسے سارا نگل لیا اسکو اور میں نے اب آہستہ سے اوپر نیچے ھوتی رھی ۔ میں سوچنے لگی کہ یہ لن ھے جو میری پھدی میں ھے۔
میری پھدی اب مزے میں تھی انگلی سے زیادہ یہ اچھا لگ رھا تھا ۔ میں اپنی پھدی کو اس پر رکھ کر اب اچھل رھی تھی ۔ اسکی چکناہٹ سے وہ سارا ٹکڑا پھسل کر میری پھدی میں چلا جاتا اور میں اور طاقت سے اپنی گانڈ اوپر اٹھا کر پھر زور سے اسکے اوپر پھدی کو مارتی اور ٹکڑا میری پھدی کے اندر سارا گھس جاتا ۔
پورے جوش سے اب میں اپنی پھدی اس پر مار رھی تھی ۔ میرے بڑے بڑے ممے زور و شور سے ہل رھے تھے اور آپس میں ایک دوسرے سے ساتھ ٹکرا رھے تھے جس کی وجہ سے شہوت اپنے عروج پر تھی ۔
میں پاگلوں کی طرح اس پہ اپنی پھدی اچھال رھی تھی اب میرے منہ سے خود ھی حیدر کا نام نکل رھا تھا میں بول رھی تھی چود اپنی ماں کو زور سے چود میرا سوہنا میرا لال میری جان کا ٹکڑا میرا حیدر ۔ انھی لفظوں کو گونج میں میں پھدی نے فارغ ھونا شروع کر دیا اور میں نے زور سے اس جگہ پہ گانڈ اچھال کر اسکو دبوچ لیا ۔ میری سانسیں بہت تیز ھو گئی تھی اور میرا جسم جھکٹے کھاتا ھوا سکون کی آخری منزل کو چھو رھا تھا ۔ اب میں مکمل طور پہ فارغ ھو چکی تھی میری پھدی سے بہت سا پانی نکل کر کچھ بیڈ پر اور قالین پر گر گیا تھا ۔
میں دربارہ سے واش روم گئی اور نہا دھو کے کپڑے پہنے اور گھر کے کاموں میں لگ گئی۔
اگلے دن حیدر نے بتایا کو کالج کی طرف سے 2 دن کے لیئے مری جا رھا ۔ میں اداس ھو گئی یہ سن کر۔
جاری ھے
No comments:
Post a Comment